سمجھ کے زہرا ستایا گیا سکینہ کو
قدم قدم پہ رلایا گیا سکینہ کو
وہ پشت ِ ناقہ پہ تنہا ہو تیز رفتاری
سنبھلتی کیسے سفر میں حسین کی پیاری
گری نہیں ہے گرایا گیا سکینہ کو
وہ اپنا حال ِیتمی سنانے آئی تھی
پدر کی لاش سے پتھر ہٹانے آئی تھی
لگا کے دُورے ہٹایا گیا سکینہ کو
رباب بین یہ تربت پہ روکے کرتی تھی
غریب ہوگئی کتنی حسین کی بیٹی
گلی گلی میں پھرایا گیا سکینہ کو
تماشہ گیر نے انعام کیسا ہے مانگا
تڑپ کے رہ گئی دربارِ شام میں فضہؑ
کنیز کہہ کے بلایا گیا سکینہ کو
سر ِ حسین کو تکتے تھے عابد ِ مضطر
ٹرپنے لگتی تھی غازی کی لاش دریا پر
تماچہ جب بھی لگایا گیا سکینہ کو
ستمگروں کی روش بن گئی تھی مقتل سے
کہیں بھی بچھڑی سفر میں تو پاس عابدؑ کے
پکڑ کے بالوں سے لایا گیا سکینہ کو
حجاب ِ غیب کا مالک بھی درد رکھتا ہے
اٹھائے مشک تکلم تلاش کرتا ہے
کہاں پہ پانی پلایا گیا سکینہ کو
Noha Title | Samajh Ke Zahra Sataya Gaya Sakina Ko |
---|---|
Recited | Syed Mohammad Shah |
Poetry by | Mir Takallum Mir |
Composition | Asgher Abbas Khan |
Album | Muharram 2023/1445H |