گونجتی شام غریباں میں یہ زینب کی صدا
میرا کوئ نہ رہا
نہ رہے بھائ نہ بیٹے چھن گئ میری ردا
میرا کوئ نہ رہا
آسرے جس کے بہن چھوڑ کے آئ تھی وطن
میرے پردے کا جسے ماں نے بنایا ضامن
لب دریا میرے غازی کے ہوۓ بازو جدا
میرا کوئ نہ رہا
وہ جو اٹھارہ برس نوری حجابوں میں رہا
لوٹ کے آؤں گا میں جس نے تھا صغرا سے کہا
ہاۓ برچھی سے کلیجہ میرے اکبر کا چھدا
میرا کوئ نہ رہا
میرا غازی بھی گیا قاسم و اکبر بھی گئے
حر سا مہمان بھی گيا ابن مظاہر بھی گئے
کس کو غربت میں صدا دوں کربلا یہ تو بتا
میرا کوئ نہ رہا
ماں نے مقتل میں جسے دولہا بنا کر بھیجا
میرے قاسم کا بدن دشت میں پامال ہوا
بال کھولے ہوۓ روتی ہوئ لاشے سے کہا
میرا کوئ نہ رہا
وہ سکینہ کے جسے پیار تھا بابا سے بڑا
بعد بابا کے ملی جس کو طمانچوں کی سزا
در جو ظالم نے اتارے خون کانوں سے بہا
میرا کوئ نہ رہا
نہ رہے بھائ نہ بیٹے چھن گئ میری ردا
میرا کوئ نہ رہا
گونجتی شام غریباں میں یہ زینب کی صدا
میرا کوئ نہ رہا