وسیله کر دیا تجھ کو دعا جانے خدا جانے
میرا تو بھر گیا دامن عطا جانے خدا جانے
مریض عشق حیدر (ع) ہوں دو اسے مجھ کو کیا مطلب
مرض جانے علی (ع) جانے شفا جانے خدا جانے
میرا تو کام ہے محفل میں ان کی منقبت پڑھنا
سخن جانے یا سر جانے گلا جانے خدا جانے
علم حیدر (ع) کو بخشا مصطفی (ص) نے بس یہی کہ کر
وہ در جانے یا پھر خیبر کشا جانے خدا جانے
میں کاغذ پر قلم رکھتا ہوں بنتی ہے ثنا ان کی
اترتی ہے بھلا کیسے بنا جانے خدا جانے
کسی کنکر کو لمحوں میں بنایا کس طرح گوہر
یہ (ع) جانے شہنشاہ ہدا جانے خدا جانے
بدن سکردو میں ہے لیکن میں باشندہ نجف کا ہوں
سحاب اس بات کو انسان کیا جانے خدا جانے