مدینے سے جو قاصد کربلا پیغام لایا ہے
حسین ابنِ علی کو دیکھ کر اُن سے یہ کہتا ہے
کسی بیمار کا خط ہے کہ جس کا نام صغرا ہے
مجھے شبیر سے ملوا دو یہ خط اُس کو دینا ہے
سنا یہ تھا سبھی کو ہے اماں شبیر کے صدقے
وہ خود ہوتا یہاں تو تم پہ یوں حملے نہیں ہوتے
مجھے جس کا بتایا تھا وہ تم ہو ہی نہیں سکتے
تمہارے ہاتھ میں کڑیل جواں بیٹے کا لاشہ ہے
مجھے شبیر سے ملوا دو یہ خط اُس کو دینا ہے
مجھے معلوم ہے قاسم کے سر سہرہ بندھا ہوگا
تمہارے ساتھ تو دولھا نظر کوئی نہیں آتا
مگر آتے ہوئے میں نے انہی آنکھوں سے یہ دیکھا
ابھی تم نے کسی لاشے کو گٹھڑی میں اٹھایا ہے
مجھے شبیر سے ملوا دو یہ خط اُس کو دینا ہے
یہ بی بی نے بتایا تھا یہاں عباس بھی ہوگا
وہی جس کے قد و قامت کا صدقہ ہے فلک سارا
اُسی قامت کا اک لاشہ ابھی مقتل میں ہے دیکھا
وہ جس کی آنکھ سے تم نے ابھی اک تیر کھینچا ہے
مجھے شبیر سے ملوا دو یہ خط اُس کو دینا ہے
سنا تھا ہوگا اُن کی گود میں ہنستا ہوا اصغر
تمہاری گود تو خالی ہے اور ہے زخم بازو پر
مگر خیموں کے پیچھے میں نے دیکھا تم نے رو رو کر
ابھی چھ ماہ کا ننھا سا اک لاشہ چھپایا ہے
مجھے شبیر سے ملوا دو یہ خط اُس کو دینا ہے
مجھے اک بار ملنا تھا یہاں عون و محمد سے
مگر اب دل مِرا گھبراتا ہے اے اجنبی بندے
کہ دو مظلوم شہزادوں کو دیکھا ہے وہاں میں نے
جنہیں اک دوسرے کے سامنے مقتل میں مارا ہے
شبیر سے ملوا دو یہ خط اُس کو دینا ہے
تسلی دو مجھے سرور کا اکبر تو سلامت ہے
ذرا یہ بھی بتاؤ ہاتھ میں یہ کس کی میت ہے
بتاؤ کون ہے یہ اور کتنا خوبصورت ہے
کہ اس لاشے کا چہرہ بھی نقابوں میں چھپایا ہے
مجھے شبیر سے ملوا دو یہ خط اُس کو دینا ہے
چلو مانا تمہی سرور ہو پر اک بات کہنی ہے
کہ سرور کے تو سینے پر سکینہ روز سوتی ہے
تمہارا سر سے پاؤں تک بدن تیروں سے چھلنی ہے
بتاؤ پھر کہاں آخر سکینہ کو سلانا ہے
مجھے شبیر سے ملوا دو یہ خط اُس کو دینا ہے
وہ کیسا وقت تھا حیدر کہ جب قاصد نے یہ بولا
کہ اے مظلوم وہ شبیر لے گا تیرا ہر بدلہ
تمہاری عورتوں کی بھی وہ حرمت کو بچا لے گا
کرم تم پر کرے گا وہ کہ وہ زہرا کا بیٹا ہے
مجھے شبیر سے ملوا دو یہ خط اُس کو دینا ہے
Noha Title | Kisi Bimar Ka Khat Hai |
---|---|
Recited By | Master Syed Mohammad Shah |
Poetry | Syed Haider Rizvi |
Composition | Syed Zaire Naqvi |
Year | Muharram 2025 |